Tuesday, June 25, 2013



Search | تلاش
آج : 25/ جون/ 2013 ، منگل
Archive Issues
Our Sponsor: Socio Reforms Society India

تمام خبریں : 20/مارچ/2013

2013-03-20 - بوقت: 23:27

سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باوجود اردو کی مقبولیت میں اضافہ

Comments : 0
اردو ایک ایسی زبان ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی حالانکہ اسے آزادی کے بعد سے ختم کرنے کی ہر چندناکام کوششیں کی جاتی رہیں ۔ اردو زبان صرف ایک زبان نہیں بلکہ ہندوستان کی ایک پوری تہذیب کی علامت ہے اور اس میں ملک کا پورا تہذیب و تمدن پایا جاتا ہے ۔ اردو کو صرف شعر و شاعری ادب تک محدود نہیں رکھنا چاہئے ، بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اسے شامل کیا جانا چاہئے تبھی یہ ہمیشہ زندہ رہ پائے گی۔ عام طورپر وہی زبانیں ترقی کرتی ہیں جنہیں سرکاری سرپرستی حاصل ہوتی ہے مگر اردو کے ساتھ ایسا نہیں ۔ اردو آج پہلے سے زیادہ مقبول ہے اور دن بدن ترقی کر رہی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار مرکزی وزیر ممکت برائے اگریکلچرل اینڈ فوڈ پروسسنگ طارق انور نے اردو اکادمی کے جلسہ تقسیم انعامات برائے منتخب کتب میں بطور مہمان خصوصی تقریر کرتے ہوئے کیا۔ جلسہ کی صدارت مرکزی حکومت کے ہیوی انڈسٹری کے سکریٹری ایم ایف فاروقی( آئی اے ایس) نے کی جبکہ نظامت کے فرائض معروف براڈ کاسٹر و اینکر شگفتہ یاسمین نے انجام دیے ۔ اس موقع پر ایم ایف فاروقی نے تمام ایوارڈ یافتگان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ اردو زبان خالص ہندوستان کی زبان ہے ۔ اردو کے علاوہ ہندوستان کی کوئی ایسی دوسری زبان نہیں جو ملک کی مکمل تہذیب کی عکاسی کرتی ہو۔ یہ انتہائی شیریں زبان ہے جسے سب کو سیکھنا چاہئے ۔ اس سے قبل اردو اکادمی کے چیرمین پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے خیرمقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے تمام مہمانان و ایوارڈ یافتگان کا مختصر تعارف پیش کیا اور طارق انور کی ملک و قوم کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ 1977ء کے بعد سے ہندوستان کی سیاست کا منظر نامہ ان کے بغیر ادھورا رہتا ہے ۔ ایم ایف فاروقی کے بارے میں انہوں نے کہاکہ اگر کسی میں حوصلہ و ہمت ہے اور مسلسل جدوجہد کرتے رہنے کی طاقت ہے تو وہ بھی اسی طرح ہندوستان کے روشن مستقبل کیلئے پالیسی میکرس میں شامل ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ان مہمانان کو یہاں مدعو کئے جانے کا مقصد اردو والوں کے سامنے انہیں مثال کے طورپر پیش کرنا تھا۔ سال کی بہترین کتابوں پر ایوارڈ پانے والے مصنفین کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ کسی صلے یا ایوارڈ کی تمنا کئے بغیر اردو ادب کی بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے خصوصی طور سے اردو کے بزرگ و سینئر فوٹو جرنلسٹ سید فدا علی اور اردو زبان کو ویب سائٹ "ریختہ ڈاٹ او آر جی" کے ذریعہ انٹرنیٹ سے جوڑنے کے صلہ میں سنجیو صراف اور عرشیہ پبلی کیشنز کے اظہار احمد کی خدمات کا خصوصی طور سے اعتراف کرتے ہوئے ان کا مکمل تعارف پیش کیا۔ اس موقع پر سید فدا علی کو "مصور اردو انعام"، سنجیو صراف کو "انعام برائے فروغ اردو" اور اظہار احمد (عرشیہ پبلی کیشنز) کو "منشی نول کشور انعام برائے ناشر" سے نوازا گیا۔ اس کے تحت نہیں 7100روپئے نقد ایک مومنٹو، میڈل، شال اور توصیف نامہ پیش کیا گیا۔ بعدازاں 2012ء میں شائع ہونے والی 20بہترین کتابوں کے مصنفین کو ایوارڈ دئیے گئے ۔ ان میں 7ہزار روپئے کے انعام کیلئے 9اور 5ہزار روپئے کے انعام کیلئے 11مصنفین شامل تھے ۔ جن میں ی پی سریواستو کو "بجھتے لمحوں کا دھواں " منظور عثمانی کو "غالب کے گھر شادی" حنیف ترین کو "روئے شمیم سے نزہت،عشق کی بہتی ہے " غیاث الرحمن کو "ہندی سینما میں مسلم اداکارائیں " برج ناتھ بے تاب کو "سرگوشیاں " ڈاکٹر مظہر احمد کو "تاریخ یوسفی المعروف عجائبات فرنگ" میکش امروہوی کو "تیرے لئے " معروف صحافی و شاعر سلیم صدیقی کو "قلندر بولتا ہے " امتیاز وحید کو "پیروڈی کا فن" ادیب و شاعر زاہد علی خاں اثر کو "موشگافیاں " ظفر عدیم کو "ہرچہ باداباد" تبسم فاطمہ کو "تاروں کی آخری منزل" خورشید ا کرم کو "پچھلی پیت کے کارنے " سعید احمد کو "آزادی کے بعد اردو سفر نامہ" عمر رضا کو "سردار شناسی" محمد نسیم اختر کو "جہان سائنس" توقیر راہی کو "اردو نصاب اور مدارس" کیلئے۔ مظہر حسین کو"سائبر دنیا میں اردو" حسنین امروہوی کو "حسن علم، اور کیوں اور کیسے نامی کتاب تصنیف کرنے پر ناظمہ پروین کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کتابوں کا انتخاب اردو اکادمی کی ایوارڈ و کلچرل سب کمیٹی و ایگزیکٹیو کمیٹی کی مشترکہ میٹنگ میں کیا گیا تھا۔ اس کے تحت ایوارڈ یافتگان کو 7100 اور5100 روپئے نقد، مومنٹو میڈل اور ایک توصیف نامہ پیش کیا گیا۔ آخر میں اکادمی کی ایوارڈ کمیٹی کے کنوینرڈاکٹر جی آر کنول نے اظہار تشکر پیش کیا۔

urdu academy delhi conference for awardees

0 comments:

Post a Comment