غزل |
غالب ایاز صحن مقتل کی آبرو ہم تھے قتل کے وقت باوضو ہم تھے یہ ندی اب کسے بلاتی ہے پہلے تو اس کی جستجو ہم تھے اپنی بستی کو یاد ہے کہ نہیں اسکی گلیوں کی ہاؤ ہو ہم تھے تشنگی دے رہی تھی سیرابی پیاس کے دیں کنار جو ہم تھے اپنے کچھ خواب یاد آنے لگے رات ماضی کے روبرو ہم تھے جانے کس بات پر وہ روٹھ گئے ہم نوالہ تھے ہم سبو ہم تھے
|
|
جل رہا ہے غزہ اور عرب کے منافق یہ سب دوغلے حکمراں |
صفدر ھمدانی ۔لندن تتلیوں کے پروں پر لکھی نظم خوں میں نہائی ہوئی خون جو اسرائیلی درندے بہاتے رہے موت کے رقص پر مسکراتے رہے خون اُن بے گناہوں کا جو بھوکے بچوں کی خاطر گھروں سے نکل کر گئے اُس غزہ کی طرف جسکی گلیوں میں برسوں سے اب موت ہے حکمراں جس کے بچوں پہ ٹوٹا ہوا بھوک کا آسمان جس کی ساری فضا میں دھواں ہی دھواں اُس غزہ کی طرف جسکے ہر ایک گھر میں کہیں نہ کہیں ایک بچہ ہے بھوکا،ڈرا اور سہما ہوا وہ غزہ جسکی تصویر میں ایک ننھی سی میت تھی مسجد کے ملبے پہ رکھی ہوئی اس طرح جیسے تصویر ہو مسکراتی ہوئی خالی آنکھوں کا نوحہ کوئی کیا لکھے آؤ سینہ زنی کر کے اُن بیگناہوں کو رو لیں ذرا قتل میں جنکے شامل ہیں خود اپنے ہی حکمراں اپنے سینوں پہ کب سے اٹھائے ہوئے بے ضمیری کے بوجھ کس طرح سے میں اس عہدِ حاضر کی کرب وبلا کی کہانی لکھوں جس کے کردار سارے یوں لگتا ہے میرے ہی ہم نام ہیں کوئی حُسنی مبارک کوئی شاہ حسین ہے کوئی شاہ حسن ۔ ان میں شامل ہے اک نام ‘‘عبداللہ‘‘ بھی یہ سبھی ایسے ناموں کی تضحیک ہیں ان کے سینوں میں قرآن ہو گا مگر انکے دل سب جہالت کی طرح سے تاریک ہیں اک عجب درد اور دُکھ کا ماحول ہے مسجدِ اقصیٰ خوں میں ہے ڈوبی ہوئی اور فلسطین کی سرزمیں ارضِ کرب وبلا کی طرح سرخ ہ ے پھر یزیدانِ عصرِ رواں ہاں تقاضہء بیعت پہ ہیں متفق آج پھر ارضِ اہلِ فلسطین پر حذبِ شیطان نے اسقدر بربریت سے دھجیاں اُڑائی ہیں انسانیت کے قوانین کی جس طرح اک نئی کربلا ارضِ اہلِ فلسطین سے دے رہی ہے صدا المدد یا خُدا۔المدد یا نبی۔المدد یا علی سب کے مشکل کُشا چاروں جانب فضا میں برستی ہوئی آگ اور خون کی ایسی بارش ہے جس میں زندگی کی کوئی ایک رمق بھی نہیں چار سو پھیلی تاریکیوں میں کہیں اک چمک بھی نہیں آسماں سے وہ بارود برسا کہ ساری زمیں جل گئی جسم معصوم بچوں کے ٹکڑے ہوئے اور مٹی میں پَل بھر میں مل کر فنا ہو گئے حذبِ شیطان نے حذبِ ایمان پر پوری طاقت سے کچھ ایسا حملہ کیا جس پہ فرعون،نمرود،شداد سب خود بھی حیران ہیں ابرہہ عہدِ حاضر کا اک بار پھر آہنی،آتشیں ہاتھیوں سے یوں غزہ پہ ہے حملہ آور ہوا یا حسین ابنِ حیدر ترے ماننے والوں پر ہے عجب ظلم کی انتہا ریزہ ریزہ ہوئے جسم جیسے فضا میں کہیں کھو گئے بھوک سے بلبلاتے ہوئے کتنے معصوم ماؤں کی گودوں میں اپنا لہو پی کے ہیں سو گئے ابرہہ عہدِ حاضر کا اس بار تنہا نہیں ساتھ اُس کے بڑی طاقتوں کے خدایانِ شر بھی تو ہیں ہاں مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس بار شاید کوئی سورئہ فیل نازل نہ ہو اور اس کا سبب ہم مسلمانوں کی بے حسی کے سوا اور کچھ بھی نہیں حذبِ شیطان کے آتشیں،آہنی ہاتھیوں نے ہمارے گھروں کو تباہ کر دیا آسماں سر سے پاؤں سے کھینچ لی ہے زمیں شہر اُجڑے ہوئے گرد اوڑھے ہوئے سو رہے ہیں مکیں عالمِ کفر و شر تو ہے جاگا ہوا حاکمینِ عرب اور عجم جیسے سوئے ہوئے اک عجب بے حسی کی ہے یہ انتہا حذبِ شیطان کے آتشیں،آہنی ہاتھیوں نے جنہیں ریزہ ریزہ کیا اُن پہ ماتم کُناں اُن پہ سینہ زناں اُن پہ نوحہ کُناں کوئی بھی تو نہیں بِک گئے ہیں قلم اور قلم کار خفتہ ضمیری کی میت اٹھائے ہوئے اور مسلمان حاکم محلات میں سہم کر چھُپ گئے ایسے حالات میں بھی ہیں اپنے حرم کو سجائے ہوئے اے عرب اور عجم کے مسلمان حاکمو ارضِ بغداد و لبنان کی موت کے بعد اب تمہیں موت پر سرزمینِ ‘‘غزہ‘‘ کی مبارک کہیں تم نے اپنے ہی دین اور تہذیب کا جس طرح سے جنازہ نکالاہے اُس پر مبارک تمہیں تم نے اپنی شجاعت و جرآت کے زرین ابواب کو جس طرح پارہ پارہ کیا اُس پہ بھی تم کو تحسین ہو اور ابد تک تمہارے ان عشرت کدوں میں اُجالا رہے سب جہانوں میں تمہاری اس بے ضمیری کا بھی بول بالا رہے بے ضمیری کے نشے میں مدہوش حاکمینِ عرب اور عجم کو ہمارا سلام ایسے فرمانرواؤں کی زریں عباؤں قباؤں پہ جانیں نثار جن کو ہے صرف اپنی حکومت سے پیار بصرہ و کوفہ و شہرِ بغداد کے بعد اب آپ کو ہو مبارک فلسطین بھی لُٹ چکا اب غزہ حذبِ شیطان کی ملکیت بن گیا اور ہر اک گھر پہ جسطرح سے موت کا راج ہ ے اوریہ ساری فضا خون اور بارود کی بو میں ہے جس طرح سے نہائی ہوئی اور یہ عزت مآب حکمراں سامراجی خداؤں کے پٹھو یہ فرمانروا قحبہ خانوں میں مدہوش سوئے ہوئے پاسبانِ حرم مصلحت کی قبا کو منافق بدن پہ سجائے ہوئے تاج اور تخت کے عشق میں بے ایماں،دوغلے حکمراں چند دن اور ہیں دیکھنا ہوں گے یہ سب بھی عبرت نشاں کعبئہ دل میں اب کوئی دے تو اذاں
|
|
No comments:
Post a Comment